ssthem.xyz

سحرش کی کہانی ایک چھوٹے اور پرسکون قصبے سے شروع ہوئی، جہاں وہ اپنی کتابوں اور خوابوں میں مگن رہتی تھی۔ لیکن اسے کیا خبر تھی کہ جلد ہی اس کی زندگی میں ایک ایسا طوفان آنے والا ہے جو اس کے ہر سکون کو تہہ و بالا کر دے گا۔

کالج کے ثقافتی پروگرام میں پہلی بار سحرش کی ملاقات احمد سے ہوئی۔ احمد، جس کے چہرے پر پراسراریت تھی اور آنکھوں میں ایک عمیق دکھ اور تنہائی کی جھلک۔ اس کے چہرے کی گہری خاموشی نے سحرش کو حیران کیا، اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی احمد کی جانب کھنچتی چلی گئی۔

شروع میں، ان کی ملاقاتیں معمولی تھیں، لیکن ہر بار احمد کی باتوں میں ایک ایسا خوف اور راز ہوتا جو سحرش کو بےچین کر دیتا۔ ایک دن احمد نے اچانک اسے ایک ویران اور سنسان جگہ پر ملنے کے لیے بلایا۔ یہ جگہ کالج کے قریب ایک پرانا اور خالی گھر تھا، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں رات کے وقت عجیب و غریب آوازیں آتی ہیں۔

سحرش نے ہچکچاتے ہوئے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئی، ہر طرف اندھیرا اور خاموشی کا راج تھا، جسے ہوا کی سرسراہٹ اور دور کہیں گرجنے والی بادلوں کی آواز نے اور بھی خوفناک بنا دیا۔ احمد وہاں پہلے سے ہی موجود تھا، لیکن اس کے چہرے پر ایک ایسی گہری سنجیدگی اور خوف تھا جس نے سحرش کے دل میں ڈر پیدا کر دیا۔

احمد نے آہستہ سے کہا، “سحرش، میری زندگی میں بہت اندھیرے ہیں جن کے بارے میں تم کچھ نہیں جانتیں۔” پھر اس نے کچھ ایسے رازوں کا ذکر کیا جنہیں سن کر سحرش کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔ اس نے بتایا کہ اس کے خاندان پر ایک پراسرار اور خوفناک سایہ ہے، ایک ایسی طاقت جو انہیں ہمیشہ نقصان پہنچاتی رہی ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے والدین بھی اسی خوفناک طاقت کا شکار ہو چکے ہیں اور اب وہ بھی اس سایہ کا شکار ہے۔

سحرش نے بے چینی سے اس کے ہاتھ کو تھاما اور کہا، “احمد، میں تمہارے ساتھ ہوں، چاہے کچھ بھی ہو۔” لیکن جیسے ہی اس نے یہ الفاظ کہے، اچانک ان کے پیچھے ایک عجیب سی سرگوشی کی آواز آئی۔ وہ دونوں گھبرا کر مڑ گئے، لیکن وہاں کوئی نظر نہیں آیا۔ سحرش کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا اور اس نے احمد سے پوچھا، “یہ آواز کس کی تھی؟”

احمد نے لرزتی آواز میں جواب دیا، “یہ وہی سایہ ہے، جو ہمیشہ میرے پیچھے رہتا ہے۔” سحرش نے خوف سے اس کا ہاتھ مزید مضبوطی سے تھام لیا۔

کچھ دن بعد، سحرش کو رات کو خواب میں ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک سایہ دار شخصیت اس کے قریب آ رہی ہے اور آہستہ آہستہ اس کی روح کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ جب وہ اس سائے سے نکلنے کی کوشش کرتی تو وہ سایہ اس کے گرد لپٹ جاتا اور اسے احمد کی آواز آتی، “سحرش، مجھے بچا لو!”

سحرش اس خواب سے ہڑبڑا کر جاگ گئی اور اس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔ اس نے فوراً احمد کو فون کیا، لیکن اس کا فون بند تھا۔ اس نے کئی بار کوشش کی، مگر کوئی جواب نہ ملا۔ سحرش کے دل میں خوف بیٹھ گیا کہ شاید احمد کو واقعی کوئی نقصان پہنچا ہے۔

کچھ دنوں بعد، احمد نے اسے دوبارہ کال کی اور ایک سنسان پارک میں ملنے کو کہا۔ رات کا وقت تھا، اور پارک میں گھپ اندھیرا تھا۔ احمد وہاں کھڑا، خاموشی سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچی تو اس نے دھیمی آواز میں کہا، “سحرش، وہ سایہ اب اور قریب آ چکا ہے۔ مجھے ہر وقت ایسا لگتا ہے کہ کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے، ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔”

یہ کہہ کر احمد نے اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا تعویذ پکڑا اور کہا، “یہ میری دادی نے مجھے دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ہمیں اس شیطانی سائے سے بچائے گا۔” لیکن جیسے ہی سحرش نے اس تعویذ کو چھوا، اچانک پارک کے اطراف میں درختوں سے سرسراہٹ سنائی دینے لگی۔ ان دونوں کو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی پراسرار اور خوفناک شے ان پر حملہ آور ہونے والی ہے۔

سحرش نے احمد کا ہاتھ پکڑا اور اس سے کہا، “ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے۔” لیکن جیسے ہی وہ پارک کے باہر جانے لگے، ایک بڑی سیاہ سایہ دار شخصیت نے ان کا راستہ روک لیا۔ احمد نے زور سے کہا، “یہ ہمیں چھوڑ دو!” لیکن سایہ مزید قریب آنے لگا، اس کی آنکھوں سے سرخ روشنی نکل رہی تھی۔

وہ دونوں اس خوفناک منظر کو دیکھ کر بھاگنے لگے، لیکن سایہ ان کا تعاقب کر رہا تھا۔ سحرش کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی سانسیں رکنے لگیں، لیکن احمد نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا اور اسے بھاگتے رہنے کے لیے حوصلہ دیتا رہا۔

کئی آزمائشوں اور خوفناک راتوں کے بعد، آخرکار ان کے خاندان نے اس پراسرار سایے کا حل نکالنے کا فیصلہ کیا اور ایک بزرگ سے رابطہ کیا۔ بزرگ نے بتایا کہ یہ سایہ احمد کے خاندان پر پرانی دشمنی اور کچھ گناہوں کی وجہ سے چھایا ہوا ہے، اور اس کا خاتمہ صرف ان کے خلوص اور سچی محبت سے ہی ممکن ہے۔

احمد اور سحرش نے اس آزمائش کا ڈٹ کر سامنا کیا اور اپنی محبت کی سچائی سے اس پراسرار سائے کو شکست دی۔ ان کی محبت نے ان کے دشمنوں کے ارادوں کو ناکام بنا دیا اور ان کی زندگی کو دوبارہ روشنی اور امن سے بھر دیا۔

یہ داستان ہمیں سکھاتی ہے کہ سچی محبت ہر خوف اور آزمائش کا سامنا کر سکتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی پراسرار اور ڈراؤنے کیوں نہ ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top