ssthem.xyz

دسمبر کا مہینہ آیا تو سردی کی شدت نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ برف کے گالے آسمان سے یوں گر رہے تھے جیسے ہر چیز کو ڈھکنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں گرم کپڑوں میں لپٹے بیٹھے تھے، اور یادوں کا دیپ دل میں جل رہا تھا۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ ماضی کے قصے، محبتیں، اور بچپن کی یادیں دوبارہ تازہ کرتے ہیں۔

میرے لیے بھی دسمبر کا مہینہ بچپن کی یادیں لے کر آتا ہے۔ بچپن کی ان یادوں میں میری ماں کا ہر عمل میرے دل میں گہرائی سے نقش ہے۔ مجھے وہ راتیں یاد ہیں جب میری ماں سردی کی شدت سے لرزتے ہوئے مجھے اپنے قریب لے کر سلاتی تھی۔ وہ زبردستی دو، دو جرسیاں پہنواتی، کبھی انڈے ابال کر دیتی، کبھی گرم دودھ، اور کبھی پنجیری۔ وہ ہر طرح سے میری حفاظت کرتی اور خود اپنی آرام کو نظرانداز کر دیتی۔ میں بچپن میں تو اس بات کو نہیں سمجھتا تھا، لیکن اب ہر دسمبر میں یہ یادیں میری آنکھیں نم کر دیتی ہیں۔

لیکن اس دسمبر کی رات کچھ الگ تھی۔ وہ یادیں جو ہمیشہ میرے دل کو سکون دیتی تھیں، اب جیسے کسی راز کو جنم دے رہی تھیں۔ ایک اندھیری رات میں، جب سب لوگ سو رہے تھے، میں اپنی ماں کی پرانی رضائی میں لیٹا ہوا تھا۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ جیسے میرے کمرے میں کوئی اور بھی ہے۔ سردی سے بھری ہوا میں ایک عجیب سی سرسراہٹ تھی، جیسے کوئی میرے بچپن کی ان یادوں کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتا ہو۔

میرے دل میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی، مگر میں نے خود کو سنبھالا اور اپنے ذہن کو سمجھایا کہ یہ بس میرا وہم ہے۔ لیکن جیسے ہی میں نے آنکھیں بند کیں، ایک سرگوشی نے میرے کانوں میں ہلچل مچا دی: “تم نے ماں کی محبت تو یاد کی، مگر وہ قربانی جو اس نے دی، اسے بھول گئے؟” یہ جملے میرے دل میں خوف کی ایک گہری چبھن بن کر اتر گئے۔

میرا دل بے قابو ہو گیا، میں نے اپنے کمرے کی روشنی جلائی۔ کمرے کی خاموشی اور وہ سرگوشی کی بازگشت مجھے بےچین کر رہی تھی۔ اس وقت مجھے اپنے بچپن کے چند بھولے بسرے واقعات یاد آنے لگے۔ وہ ایک رات جب ماں نے مجھے اپنے ساتھ لپیٹ لیا تھا اور مجھے ایک کہانی سنائی تھی۔ اس کہانی میں ایک بچے کی حفاظت کے لیے ایک ماں نے اپنی جان کی بازی لگا دی تھی۔ اُس وقت میں نے اسے بس ایک کہانی سمجھا تھا، لیکن اب جیسے وہ کہانی حقیقت بن کر میرے سامنے آ رہی تھی۔

اگلی صبح میں نے یہ سب باتیں اپنی ماں سے پوچھنے کا فیصلہ کیا۔ میں اس کے کمرے میں گیا اور پوچھا، “ماں، وہ کہانی جو آپ نے مجھے سنائی تھی، کیا اس میں کچھ حقیقت تھی؟” میری ماں کی آنکھوں میں حیرت تھی، پھر اُس نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “وہ صرف ایک کہانی تھی، بیٹا۔”

لیکن میری ماں کی آنکھوں میں ایک غم چھپا ہوا تھا، ایک ایسا غم جو ہمیشہ مجھ سے چھپا رہی تھی۔ اُس رات میں دوبارہ اسی سرگوشی کو سننے کے خوف میں مبتلا تھا، مگر میں نے ہمت کی اور اس بار اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ وہ سرگوشی دوبارہ سنائی دی، لیکن اس بار اس میں ایک درد تھا، جیسے کسی کی آخری چیخ ہو۔ “تم نے کبھی پوچھا نہیں کہ تمہیں سردی میں محفوظ رکھنے کے لیے ماں نے کس طرح اپنے جسم و جان کو قربان کیا؟”

میرا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ صبح ہوتے ہی میں نے اپنی ماں سے دوبارہ سوال کیا۔ “ماں، وہ سرگوشی جو میں سن رہا ہوں، کیا یہ کوئی حقیقت ہے؟” میری ماں نے ایک لمحے کے لیے مجھے دیکھا اور پھر آہستہ سے بولی، “بیٹا، کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کہنے سے نہیں بلکہ سمجھنے سے محسوس کی جاتی ہیں۔ تمہیں جو سنائی دے رہا ہے، وہ شاید میری محبت کی شدت ہے۔”

لیکن میں نے ہار نہیں مانی۔ میں نے اپنی نانی سے بات کی، جو ہمارے خاندان کی پرانی کہانیاں جانتی تھیں۔ انہوں نے میری طرف دیکھ کر کہا، “تمہاری ماں نے تمہیں سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی زندگی کی سب سے بڑی قربانی دی ہے۔ لیکن اس نے کبھی تمہیں یہ سب بتانا مناسب نہیں سمجھا، کیونکہ ماں کی محبت کبھی دکھاوے کی نہیں ہوتی۔”

میری نانی نے جو کچھ کہا، اس نے میری دنیا ہلا دی۔ دسمبر کی اس سرد رات میں میں نے اپنی ماں کے کمرے کی طرف قدم بڑھائے۔ اس بار میں جان چکا تھا کہ میری ماں کی محبت نے میرے لیے وہ سب کچھ کیا جس کا مجھے اندازہ بھی نہیں تھا۔

for islamic Post Visit

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top