🌟 اتنی محبت؟ اتنی عقیدت؟
تیسری قسط
یہ ایک کہانی ہے محبت اور عقیدت کی، جس میں ہر لمحے نئے موڑ سامنے آتے ہیں۔ جب زندگی میں سکون آ جاتا ہے اور لگتا ہے کہ سب کچھ اپنی جگہ ہے، تو اچانک کسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حارث کو ہسپتال میں داخل ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا تھا۔ ہر دن ان کی حالت کا پتا چلتا تو دل کو سکون نہیں ملتا تھا، دعاؤں کا سلسلہ جاری تھا۔ وہ بے ہوش تھے، اور میں رات دن ان کے پاس بیٹھے، ان کی صحت کے لئے دعائیں مانگ رہی تھی۔ ایک صبح، جب سب کچھ خاموشی سے چل رہا تھا، ایک آرمی افسر میرے پاس آیا۔ اس کے چہرے پر ایک سنجیدگی اور فکر کی لہر تھی۔
“محترمہ زینب،” اس نے مجھ سے نرمی سے کہا، “مجھے آپ سے کچھ خاص بات کرنی ہے۔”
میرے دل میں وسوسے اٹھنے لگے اور تجسس بھی بڑھ گیا۔ ہم نے ایک سائیڈ میں جا کر بات شروع کی، اور اس نے بتانا شروع کیا کہ جس مشن پر حارث گئے تھے، وہ ایک حساس اور مشکل ترین مشن تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس حادثے کے پیچھے کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ شاید کوئی دشمن ہے، جو ان کی کامیابی کو نہیں دیکھنا چاہتا۔
“کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ ایک حادثہ نہیں، بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی؟” میری آنکھوں میں خوف اور حیرت کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔
“ہاں،” اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ “ابھی اس بات کی تصدیق تو نہیں ہو سکتی، لیکن اس معاملے میں کچھ ایسا ہے جو ہمیں بے چین کرتا ہے۔ ہمیں کچھ سراغ ملے ہیں جنہیں مزید کھوجنے کی ضرورت ہے۔”
یہ سن کر میری سوچیں جیسے بکھر گئیں۔ حارث تو ہمیشہ اپنے فرض میں وفادار تھے۔ ان کی زندگی میں نہ کبھی کوئی دشمنی تھی اور نہ ہی کوئی شکایت۔ پھر آخر کیوں اور کیسے انہیں نشانہ بنایا گیا؟ یہ کون لوگ تھے، جو انہیں نقصان پہنچانا چاہتے تھے؟
اگلے ہی دن، ایک نیا موڑ میری زندگی میں آیا۔ ایک بے نام خط مجھے موصول ہوا جس میں کچھ عجیب و غریب الفاظ لکھے تھے:
“اگر تم اپنے شوہر سے محبت کرتی ہو تو تمہیں اسے بچانے کے لئے خاموش رہنا ہوگا۔ جو کچھ بھی ہوا ہے، اسے وہیں چھوڑ دو اور حقیقت جاننے کی کوشش مت کرو۔ ورنہ تم بھی اسی طرح خطرے میں پڑ جاو گی جس طرح تمہارا شوہر ہوا ہے۔”
میری تو جیسے دنیا ہی اُجڑ گئی۔ یہ خط کیا اشارہ کر رہا تھا؟ اس میں کون لوگ ملوث تھے؟ کیا واقعی کوئی سازش تھی؟ میرے دل میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ میں ہر لمحہ سوچتی کہ کیا کروں، کیسے حارث کو اس خطرے سے بچا سکوں؟
اسی دوران، میں نے آرمی کے افسر کو یہ خط دکھانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے چہرے پر بھی تشویش کا اثر صاف دکھائی دیا۔ اس نے مجھے یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کی گہرائی میں جائیں گے اور معلوم کریں گے کہ آخر یہ کیا معاملہ ہے۔ مگر اس کے بعد بھی میں ہر لمحہ خوفزدہ رہنے لگی۔
ہسپتال میں حارث کی دیکھ بھال کے دوران، ہر رات کسی کے قدموں کی آہٹ محسوس ہوتی، اور کبھی کبھی مجھے لگتا جیسے کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے۔ ایک رات، جب میں ہسپتال کے کمرے میں تھی، ایک پراسرار سایہ باہر گزرا۔ میں نے باہر نکل کر دیکھا، مگر کوئی بھی نہیں تھا۔
کچھ دن بعد، ایک اور عجیب واقعہ ہوا۔ میں حارث کے بستر کے پاس بیٹھ کر دعا کر رہی تھی کہ اچانک ایک نرس میرے پاس آئی اور آہستہ سے کہنے لگی، “آپ کو محتاط رہنا چاہیے۔ کچھ ایسے لوگ ہیں جو نہیں چاہتے کہ آپ اس معاملے میں مزید چھان بین کریں۔” یہ سنتے ہی میرا دل کانپ اٹھا۔ آخر یہ کیا ہو رہا تھا؟ مجھے کیوں روکا جا رہا تھا؟
ایک رات جب میں ہسپتال میں حارث کے پاس تھی، اچانک انہوں نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں۔ ان کی سانسیں بھاری تھیں، مگر جیسے ہی انہوں نے مجھے دیکھا، ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آگئی۔ “زینب،” انہوں نے آہستہ سے کہا، “یہ حادثہ نہیں تھا۔ مجھے کسی نے جان بوجھ کر نشانہ بنایا ہے۔”
میرے ہاتھ لرزنے لگے۔ “کیا؟ کیا آپ کو کسی نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی؟ لیکن کیوں؟ اور کون؟”
حارث نے ایک گہری سانس لی اور بولا، “یہ سب باتیں تم سے کہنے کے لیے میری ہمت نہیں ہے۔ مگر بس اتنا سمجھ لو کہ دشمن ہمارے قریب ہیں۔ اور یہ حادثہ نہیں تھا۔ میں نہیں چاہتا کہ تم اس خطرے میں پڑو۔ بس، اپنا خیال رکھنا اور محتاط رہنا۔”
حارث کے ان الفاظ نے میری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اگر وہ یہ سب کہہ رہے تھے، تو معاملہ واقعی سنگین ہوگا۔ مگر میں ان کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کا جواب کیسے نہ تلاش کرتی؟ حارث کی حفاظت کے لئے کچھ بھی کرنا تھا۔ مجھے ہر قیمت پر حقیقت تک پہنچنا تھا۔ مگر یہ سفر آسان نہ تھا۔
میں نے اپنے دوستوں اور اہل خانہ کو بھی اعتماد میں لیا، اور سب نے مجھے مشورہ دیا کہ میں صبر سے کام لوں اور ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھاؤں۔ مگر دل سے ایک آواز آ رہی تھی کہ مجھے اس حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
کچھ دن گزر گئے، اور حارث کی حالت بہتر ہوتی گئی۔ مگر ہمارے دلوں میں خوف اور تجسس کا ایک طوفان بپا تھا۔ ہمیں ہر لمحے یہی لگتا کہ کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے، ہماری حرکات و سکنات پر نظر رکھ رہا ہے۔
حارث کی یونٹ سے بھی چند لوگوں نے ہمارے ساتھ رابطہ کیا اور ہمیں یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کی پوری جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔ لیکن یہ جاننا کہ دشمن قریب ہیں، ہمیں ہر پل محتاط رکھتا تھا۔
کچھ دن بعد ایک دن میں اپنے گھر پر تھی اور یادوں میں گم تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف ایک انجانا نمبر تھا، مگر آواز کچھ جانی پہچانی سی تھی۔ اس نے آہستہ سے کہا: “حارث سے دور رہو۔ تم نہیں جانتی کہ تم کس خطرے میں ہو۔ اگر تم نے اس بات کو نہیں سنا، تو اس کا انجام بہت برا ہوگا۔”
میں تو جیسے پتھر کی بن گئی۔ یہ کون تھا؟ اور وہ کیا چاہتا تھا؟
اب ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جیسے ہی حارث کی طبیعت پوری طرح سنبھل جائے گی، ہم سب مل کر اس راز کو فاش کریں گے۔ یہ خاموش دشمن ہم پر نظر رکھے ہوئے تھے، مگر ہمیں اس خطرے کو نظرانداز کرنے کا وقت نہیں تھا۔ ہم نے اپنے ارادے کو مضبوط کر لیا کہ ہم اس حقیقت تک پہنچ کر دم لیں گے۔
کیا ہم اس حقیقت کو جان سکیں گے؟ کیا ہم دشمنوں کی چالوں کا سامنا کر پائیں گے؟ اس خاموش دشمن سے لڑنا آسان نہ ہوگا، مگر ہم تیار ہیں۔
جاری ہے…
🔥 So Much Love? So Much Mystery? 🔥
Episode 3
This is a story filled with love, loyalty, and unexpected turns of fate. Just when life seemed peaceful, a sudden twist took us by surprise.
It had been over a week since Haris was admitted to the hospital. His condition remained serious, and I spent every moment by his side, praying for his recovery. One morning, as I sat beside him, a military officer approached me. His face carried a grave expression, a hint that he had something significant to discuss.
“Ms. Zainab,” he addressed me gently, “I need to talk to you about something important.”
A sense of dread and curiosity filled me. We moved to a private area, and he began explaining that the mission Haris had been on was one of the most sensitive and challenging of his career. He hinted that Haris’s injury might not have been a mere accident.
“Are you suggesting that this wasn’t an accident, but rather a planned attack?” I asked, my voice laced with shock and fear.
“Yes,” he replied, his tone serious. “We don’t have concrete evidence yet, but there are some signs that make us suspicious. We’ll need to investigate further.”
The weight of his words struck me. Haris had been dedicated to his duty and had no known enemies. Who would want to harm him, and why? My mind reeled with questions, but I had no answers.
The very next day, a mysterious letter arrived at my doorstep. It was handwritten, with chilling words:
“If you love your husband, stay silent. Don’t dig deeper into what happened, or you’ll end up in danger just like him.”
I felt like my world was crumbling. The letter seemed to suggest there were powerful people behind this, people who wouldn’t think twice about hurting anyone who got in their way. My heart pounded with fear. What was I supposed to do? How could I protect Haris?
Determined to uncover the truth, I decided to show the letter to the military officer. His face grew even more serious after reading it, but he assured me that they would look deeper into this and make sure no harm came to us. Even so, a sense of fear crept into every part of my day.
At night, I felt as if someone was watching us. Once, when I was sitting in Haris’s hospital room, I thought I saw a shadow pass by the door. I rushed outside, but no one was there. My paranoia grew with each passing day.
A few days later, another strange incident occurred. I was sitting by Haris’s bed, praying, when a nurse approached me quietly and whispered, “You need to be careful. There are people who don’t want you to look into this.”
Her words sent shivers down my spine. Who was trying to keep us from finding the truth?
One night, as I sat with Haris, he slowly opened his eyes. He was still weak, but as soon as he saw me, a faint smile appeared on his face. “Zainab,” he said softly, “this was no accident. Someone tried to hurt me on purpose.”
My hands shook. “What? Haris, who would want to harm you? Why?”
Haris took a deep breath. “It’s complicated. Just know that there are people out there who don’t want us to succeed. I can’t explain everything now, but please, stay safe. Promise me you’ll be careful.”
His words shattered my peace. If he was saying this, then it meant the threat was real. But how could I ignore it? How could I let this injustice go unanswered? I knew I had to dig deeper, even if it meant putting myself in danger. I couldn’t let whoever did this to Haris get away with it.
I confided in close family and friends, and they advised me to proceed with caution. But my heart was set—I had to find out the truth, no matter the risk.
Days passed, and Haris’s health slowly improved. However, the fear in our hearts remained. Every day, I felt as if someone was observing us, watching our every move.
Some of Haris’s unit members contacted us, promising to investigate the matter thoroughly. But the more I thought about it, the more anxious I became. It felt as if the danger was lurking close, waiting for us to make a wrong move.
One day, while I was at home, lost in thought, the phone rang. The number was unfamiliar, but the voice sounded somewhat familiar. The person on the other end said in a low voice, “Stay away from Haris. You have no idea of the danger you’re in. If you don’t listen, the consequences will be severe.”
I froze. Who was this person, and why did they want me to leave Haris? What danger could possibly be so threatening?
Haris and I decided that once he fully recovered, we would join forces to uncover the truth. Whoever was behind this, they would soon realize we wouldn’t be intimidated. The silent enemy watching us might have thought we’d back down, but we were more determined than ever to fight back.
Would we be able to unveil the truth? Would we be able to confront those who tried to destroy our lives? The journey ahead was treacherous, but we were prepared for whatever came next.
To be continued…