“محبت کا پچھتاوا: ایک غلط فیصلے کی قیمت”
میری شادی کو تین سال ہو چکے تھے، لیکن زندگی کی حقیقتیں اور رشتہ کی پیچیدگیاں دن بدن بڑھتی جارہی تھیں۔ میری بیوی، حرا، ایک نیک اور سلیقہ مند لڑکی تھی، مگر کچھ ایسی باتیں تھیں جو مجھے اس سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیتی تھیں۔ وہ میرے خاندان والوں سے میل جول کم رکھتی تھی، اور ہر وقت اپنے ہی خیالوں میں گم رہتی تھی۔ شاید میں بھی اس کے ساتھ وہ محبت نہیں کر پاتا تھا جو وہ مجھ سے توقع کرتی تھی۔
میرے والدین ہمیشہ اسے پسند نہیں کرتے تھے، اور ہر وقت میری بیوی پر اعتراض کرتے رہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ حرا کے اندر وہ بات نہیں جو ہمارے خاندان کی روایات میں ہونی چاہیے۔ گھر میں یہ لڑائیاں، اعتراضات، اور شکوے بڑھتے گئے، اور آخرکار میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اس بیوی سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ میری زندگی میں ایک لمحے کی بھی سکون کی ضرورت تھی۔
ایک دن جب میں نے مزید برداشت کی حد کو پار کر لیا، میں نے کچھ ایسا کرنے کی ٹھانی جس کا شاید میں خود بھی تصور نہیں کرتا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ حرا کو خاموشی سے مار دوں، تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ پھر میں نے سوچا کہ یہ کوئی عام طریقہ نہیں ہو سکتا، مجھے کچھ ایسا کرنا ہوگا جس سے سب کو لگے کہ یہ ایک قدرتی موت تھی۔
پھر میری نظریں دودھ کے گلاس پر پڑیں، اور میں نے فوراً اس میں زہر ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ زہر کوئی عام نہیں تھا، وہ خاص طور پر مہنگا تھا اور اس کا اثر فوری تھا۔ میں نے دودھ کا گلاس اس کے سامنے رکھا اور سوچا کہ اگر وہ یہ دودھ پی لے، تو کچھ ہی دیر میں اس کی حالت خراب ہو جائے گی اور پھر میں آرام سے زندگی گزار سکوں گا۔
میرے دل میں عجیب و غریب احساسات تھے۔ مجھے اس بات کا خوف تھا کہ اگر وہ مر گئی تو مجھے اس کی موت کا کیا حساب دینا ہوگا، لیکن پھر میں نے سوچا کہ یہ سب کچھ میرے لیے بہتر ہوگا۔ اس گلاس کے ذریعے، میں حرا کو ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی سے نکال سکتا تھا۔
جب میں نے وہ دودھ کا گلاس حرا کے سامنے رکھا، تو وہ کچھ دیر میرے چہرے کو دیکھتی رہی۔ اس نے کہا، “کیا یہ دودھ تم نے خود بنایا ہے؟” میں نے جھوٹ بولا، “ہاں، میں نے یہ دودھ تمہارے لیے بنایا ہے تاکہ تمہاری صحت بہتر ہو۔” وہ ہنستی ہوئی بولی، “تمہاری محبت کا شکریہ، لیکن تمہیں پینے سے پہلے کچھ وقت دے دینا چاہیے، کیونکہ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔”
پھر، اس نے وہ دودھ پی لیا، اور میں نے فوراً اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ دیکھی۔ میں نے فوراً اپنا ہاتھ پھیلایا اور چمچ کے ذریعے اس کا پانی پی لینے کا کہا۔ لیکن اس نے کچھ نہیں کہا، بس آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
کچھ ہی لمحوں بعد، اس کا جسم کمزور پڑنے لگا اور وہ نیم بے ہوش سی ہو گئی۔ میں گھبرایا اور فوراً اس کے قریب پہنچا، لیکن وہ کچھ نہیں بولی۔ دل میں ایک عجیب سا خوف محسوس ہونے لگا۔ کیا یہ حقیقت تھی؟ کیا وہ مرنے والی تھی؟
پھر، اچانک ایک فون کال آئی۔ یہ حرا کے گھر سے تھا۔ ان کی والدہ کی آواز آئی، “بیٹا جلدی گھر آ جاؤ، حرا کی آخری سانسیں چل رہی ہیں۔ وہ تمہیں بلا رہی ہے۔” یہ سن کر میں ایک لمحے کے لیے ٹھٹک گیا۔ کیا یہ ممکن ہے؟ حرا جو ابھی تک زندہ تھی، وہ اب موت کی دہلیز پر تھی؟
میں فوراً گھر کی طرف روانہ ہو گیا، لیکن دل میں عجیب سی بے چینی تھی۔ میں نے سوچا، “اگر وہ مر گئی تو میری زندگی کیا ہوگی؟ کیا میں ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاؤں گا؟” لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ یہ سب کچھ میرے کنٹرول میں تھا، اور کوئی بھی اس کے مرنے کا راز نہیں جان سکے گا۔
گھر پہنچا تو حرا کی حالت مزید خراب ہو چکی تھی۔ اس کی سانسیں بہت مشکل سے چل رہی تھیں۔ وہ بہت کمزور ہو چکی تھی، اور اس کی آنکھوں میں بس ایک شوق تھا کہ وہ مجھے دیکھے۔ میں اس کے قریب بیٹھا اور اس کے ہاتھ کو تھاما۔ اس نے آہستہ سے کہا، “میرے ساتھ تم نے ہمیشہ اچھا سلوک نہیں کیا، لیکن میں تم سے محبت کرتی ہوں، تم ہی میرا سب کچھ ہو۔” اس کی یہ باتیں میرے دل میں ہلچل مچا گئیں۔
اب میں اس بات کو سمجھنے لگا تھا کہ زندگی میں کچھ بھی سچ نہیں ہوتا۔ ہم انسانوں کی سوچیں، ہمارے فیصلے، ہماری کارروائیاں، سب کچھ غلط ہو سکتا ہے۔ میں نے حرا کے ساتھ جو کیا، وہ درست نہیں تھا، اور میں اب اسے سمجھنے لگا تھا۔ اس نے ہمیشہ مجھے اپنی محبت سے نوازا، لیکن میں نے اس کی قدر نہیں کی۔ میں نے سوچا کہ اسے ختم کرکے میں اپنی زندگی میں سکون پا سکوں گا، لیکن حقیقت میں میں اپنی زندگی سے سکون چھین رہا تھا۔
حرا کی حالت مزید خراب ہوتی جا رہی تھی، اور میں اس کے ساتھ بیٹھا رہا۔ اسی دوران، اس کی سانسوں کی رفتار کم ہوتی گئی اور ایک لمحے کے بعد، اس نے آخری سانس لی۔ وہ دنیا سے رخصت ہو گئی۔
حرا کی موت کے بعد، میں نے جو کچھ کیا تھا اس کا مجھے شدید احساس ہونے لگا۔ وہ عورت جو ہمیشہ میرے لیے تھی، وہ اب اس دنیا میں نہیں تھی۔ میں نے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ میں نے اس سے نجات پائی، لیکن دل میں ایک خلاء تھا جسے پر کرنا ناممکن تھا۔
حرا کی موت کے بعد، اس کی والدہ نے مجھے ایک خط دیا جو اس نے اپنی آخری دنوں میں لکھا تھا۔ خط میں لکھا تھا:
“میں نے تم سے کبھی کچھ نہیں مانگا، لیکن میں نے تمہارے ساتھ اپنی زندگی کی ہر خوشی گزارنے کی کوشش کی۔ تم نے مجھے چھوڑا اور میری زندگی میں اتنی تلخی بھری، لیکن میں پھر بھی تم سے محبت کرتی ہوں۔ میرا خیال رکھنا، اور کبھی بھی اس بات کو نہ بھولنا کہ تمہاری زندگی کا حقیقی سکون تمہاری محبت میں ہے، نہ کہ اس میں جو تم نے کیا۔”
یہ خط میرے دل میں ایک گہرا درد چھوڑ گیا۔ میں نے اس کی محبت کو کبھی نہیں سمجھا، اور آج وہ میری زندگی سے جا چکی تھی۔
حرا کے مرنے کے بعد، مجھے احساس ہوا کہ زندگی میں محبت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی۔ وہ عورت جسے میں نے ناپسند کیا، وہ آج میری زندگی کا سب سے بڑا دکھ بن چکی تھی۔ اگر میں اس وقت اپنی سوچ کو درست کرتا، تو شاید میں آج اس کی موت کا بوجھ نہ اٹھا رہا ہوتا۔ اس کا چہرہ، اس کی مسکراہٹ، اور اس کی محبت ہمیشہ میرے ذہن میں رہے گی، اور میں ہمیشہ پچھتاتا رہوں گا کہ میں نے اس سے محبت کیوں نہ کی۔
یہ کہانی ایک سبق ہے کہ زندگی میں کبھی کسی کو حقیر نہ سمجھو، کیونکہ تقدیر کسی کو بھی بدل سکتی ہے۔