🌟اتنی محبت؟ اتنی عقیدت؟ 🌟
- (دوسری قسط) *
ہماری شادی کو چھ ماہ گزر چکے تھے، زندگی بڑی خوبصورتی اور سکون سے گزر رہی تھی۔ حارث جب بھی اپنی یونٹ سے چھٹی پر گھر آتے، ہر لمحہ خوشیوں سے بھرا ہوتا۔ ہم اپنے خوابوں کی باتیں کرتے، اپنے آنے والے کل کے لئے منصوبے بناتے۔ ہمارے دل مطمئن اور روحیں سکون میں تھیں۔
ایک شام، جب میں اپنے والدین کے گھر جا رہی تھی، میرے فون پر ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی۔ میں نے سوچا شاید کوئی غلطی سے کر رہا ہے، مگر جیسے ہی میں نے کال اٹھائی، ایک گہری اور تھکی ہوئی آواز میرے کانوں میں گونجی، “زینب! کیا تم حارث کی بیوی ہو؟” میرے دل کی دھڑکن ایک لمحے کے لئے رک سی گئی۔
“جی، میں زینب ہوں۔ آپ کون ہیں؟” میں نے دل میں بےچینی کو دبانے کی کوشش کی۔
دوسری طرف سے آواز آئی، “میں کیپٹن فہیم ہوں، حارث کے ساتھ ان کے یونٹ میں ہوں۔” چند لمحوں کے لئے میرے دماغ میں کچھ ٹھیک سے سمجھ نہیں آیا، مگر اگلے ہی لمحے ان کے الفاظ نے میرے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی۔
“زینب، مجھے افسوس ہے کہ تمہیں یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ حارث آج ایک مشن کے دوران زخمی ہوگئے ہیں۔ انہیں قریبی اسپتال منتقل کیا گیا ہے، مگر ان کی حالت تشویشناک ہے۔” یہ کہتے ہوئے ان کی آواز میں بھی غم اور بےچینی نمایاں تھی۔
میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، دل کی دھڑکن تیز ہوگئی، اور ایک لمحے کے لئے مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ میں کیا کروں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ابھی تو دو ہفتے پہلے ہی ہم ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔ میں نے سوچا، شاید یہ کوئی غلط فہمی ہے۔ حارث تو ہمیشہ کہتا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا خیال رکھے گا، پھر کیسے یہ سب ہو سکتا ہے؟
میں نے کپکپاتے ہاتھوں سے فون رکھ دیا اور بے اختیار آنسو میری آنکھوں سے بہنے لگے۔ میری دنیا جیسے ختم ہو رہی تھی۔ اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ فوراً گھر کے اندر گئی اور والد کو بتایا۔ انہوں نے تسلی دی اور فوراً سفر کا انتظام کرنے لگے تاکہ ہم حارث کے پاس جا سکیں۔
رات بھر میں نہ سونے کی کوشش کی، نہ کھانا کھایا، بس دعا مانگتی رہی کہ اللہ حارث کو محفوظ رکھے۔ جب ہم اسپتال پہنچے تو وہاں کی فضا میں ایک خاموشی اور گہری اداسی تھی۔ ہم نے جیسے ہی اسپتال کے اس وارڈ میں قدم رکھا جہاں حارث کو رکھا گیا تھا، میرا دل مزید بوجھل ہوگیا۔
ایک نرس ہمیں وہاں لے کر گئی اور جیسے ہی میں نے حارث کو دیکھا، میرا دل تڑپ اٹھا۔ وہ بستر پر لیٹا ہوا تھا، اور اس کے جسم پر مختلف زخموں کے نشان تھے۔ مگر اس کے چہرے پر ایک سکون سا تھا، جیسے کوئی بہادر سپاہی اپنی ذمہ داری پوری کرکے پرسکون ہو۔
میں نے آہستہ سے اس کا ہاتھ پکڑا، اور آنسو میری آنکھوں سے ٹپکنے لگے۔ میں نے سوچا، کیا یہ ہمارا انجام ہے؟ کیا یہ ہماری کہانی کا اختتام ہے؟
اسی لمحے ڈاکٹر نے ہمیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ حارث کی حالت نازک تو ہے، لیکن وہ امید رکھتے ہیں کہ جلد ہی صحت یاب ہو جائے گا۔ ان کی باتوں نے تھوڑی سی تسلی دی مگر دل میں عجیب سا خوف تھا۔
اگلے دن صبح، ایک اور فوجی افسر ہمارے پاس آیا اور کہا کہ حارث کو جس مشن کے دوران زخمی کیا گیا تھا، وہ بہت خطرناک تھا۔ اس مشن کی تفصیلات مکمل طور پر خفیہ تھیں، اور یہ معمولی چیز نہیں تھی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ شاید حارث کے اس واقعے کے پیچھے کچھ ایسے راز چھپے ہیں جن کے بارے میں ہمیں نہیں بتایا جا سکتا۔
ان کی باتوں نے مجھے مزید بےچین کر دیا۔ آخر حارث کو کس مشن پر بھیجا گیا تھا؟ کیا ان کے زخمی ہونے کے پیچھے کوئی اور کہانی چھپی ہے؟ یا پھر کچھ اور بھی ہے جسے ہم جاننے سے قاصر ہیں؟
میرے دل میں بےشمار سوالات اٹھنے لگے۔ جب میں نے ایک بار پھر اس کے پاس بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھاما، اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھر آئی۔ “زینب، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔”
میں نے سر ہلایا، مگر دل میں سوالات کا ایک طوفان بپا تھا۔ کیا یہ حادثہ واقعی حادثہ تھا یا اس کے پیچھے کوئی بڑی کہانی چھپی ہوئی تھی؟ کیا حارث کو کسی ایسے راز کی حفاظت کے لئے قربانی دینی پڑی جس کے بارے میں ہم جان بھی نہیں سکتے تھے؟
جاری ہے…
🌟So Much Love? So Much Devotion?🌟
(Episode 2)
Six months had passed since our wedding, and life was unfolding beautifully, filled with peace and joy. Every time Haris came home on leave from his unit, our days were brimming with happiness. We would talk about our dreams, plan for our future, and feel a deep contentment within. Our hearts were at ease, and our souls felt fulfilled.
One evening, while I was on my way to visit my parents, I received a call from an unknown number. I thought it might be a wrong number, but as soon as I answered, a deep, weary voice reached my ears, “Zainab! Are you Haris’s wife?” My heartbeat paused for a moment.
“Yes, I am Zainab. Who is this?” I tried to keep the anxiety out of my voice.
The voice on the other end responded, “This is Captain Faheem, I serve with Haris in his unit.” For a moment, I couldn’t quite comprehend, but his next words pulled the ground from beneath my feet.
“Zainab, I’m sorry to inform you that Haris was injured today during a mission. He has been transferred to a nearby hospital, but his condition is critical.” His voice was filled with sorrow and unease.
My vision blurred, my heart raced, and for a moment, I couldn’t process what he had just said. How could this happen? Just two weeks ago, we were together, making plans. I thought, maybe it was a misunderstanding. Haris had always promised he would take care of himself—how could this be real?
I put the phone down with trembling hands, and without realizing it, tears started streaming down my face. My world seemed to be collapsing. I struggled to keep my composure as I ran inside to tell my father. He comforted me, and we immediately started making arrangements to leave for the hospital.
That entire night, I stayed awake, unable to eat or rest, just praying for Haris’s safety. When we reached the hospital, the atmosphere was heavy with silence and somberness. As we approached the ward where Haris was, my heart grew heavier with every step.
A nurse guided us to his room, and when I saw him, my heart sank. He lay on the hospital bed, his body bearing the marks of multiple injuries. But there was a strange calmness on his face, the kind you see in a warrior who has fulfilled his duty.
Gently, I held his hand, and tears fell uncontrollably from my eyes. I wondered, was this really our fate? Was this how our story would end?
At that moment, the doctor came to us and offered some reassurance, saying that although Haris’s condition was critical, they were hopeful he would recover soon. His words gave me a little relief, but a strange fear lingered in my heart.
The following morning, another officer came to see us and explained that the mission during which Haris was injured was extremely dangerous. The mission’s details were highly classified, and this was not a minor incident. He hinted that there might be secrets behind this event that couldn’t be shared with us.
His words unsettled me even more. What kind of mission was Haris on? Was there something hidden behind his injuries? Or was there more to the story that we were not allowed to know?
My mind was flooded with questions. As I sat by his side, holding his hand once more, a faint smile appeared on his lips. “Zainab, everything will be okay. Trust in Allah.”
I nodded, but inside, a storm of questions raged. Was this accident truly an accident, or was there a larger story hidden behind it? Had Haris sacrificed himself to protect a secret we might never know?
To be continued…