ssthem.xyz

مائی بشیراں کی کہانی ایک دلچسپ اور مزاحیہ واقعے پر مبنی ہے جو ایک دیہاتی عورت اور دو وکیلوں کے درمیان پیش آیا۔ یہ قصہ ایک گاؤں کی سب سے قدیمی عورت، مائی بشیراں کے گرد گھومتا ہے جو اپنی صاف گوئی، بے باکی اور حقیقت بیانی کی وجہ سے علاقے میں مشہور ہے۔

حصہ 1: عدالت کا منظر

ایک دن عدالت میں ایک اہم مقدمہ چل رہا تھا جس میں مائی بشیراں کو گواہ کے طور پر بلایا گیا۔ جج اور وکلاء سب منتظر تھے کہ یہ بوڑھی عورت کس قسم کی گواہی دے گی۔ مائی بشیراں عدالت میں داخل ہوئی، اور سب نے اسے دلچسپی سے دیکھا۔ وہ ایک سادہ سے لباس میں تھی، مگر اس کے چہرے پر ایک خاص جلال اور اعتماد کی جھلک تھی۔

وکیل استغاثہ، جو خاصا خود اعتمادی کا مظاہرہ کر رہا تھا، مائی بشیراں کی طرف بڑھا اور اس سے پوچھا: “مائی بشیراں، کیا تم مجھے جانتی ہو؟”

حصہ 2: مائی بشیراں کی گواہی

مائی بشیراں نے وکیل استغاثہ کی طرف دیکھا اور ایک گہری سانس لے کر بولی: “ہاں قدوس، میں تمہیں اس وقت سے جانتی ہوں جب تم ایک بچے تھے۔ اور سچ پوچھو تو تم نے مجھے شدید مایوس کیا ہے۔” یہ سن کر وکیل کے چہرے کا رنگ بدل گیا، مگر مائی بشیراں کی باتیں ابھی ختم نہیں ہوئیں تھیں۔

وہ مزید بولی، “تم جھوٹ بولتے ہو، لڑائیاں کرواتے ہو، اپنی بیوی کو دھوکہ دیتے ہو، طوائفوں کے پاس جاتے ہو، اور لوگوں کو استعمال کر کے پھینک دیتے ہو۔ پیٹھ پیچھے برائیاں کرتے ہو، اور سپر مارکیٹ والے کے دس ہزار روپے ابھی تک نہیں دئے۔ شراب پیتے ہو، جوا کھیلتے ہو، اور تمہارا خیال ہے کہ تم بہت ذہین ہو، حالانکہ تمہاری کھوپڑی میں مینڈک جتنا دماغ بھی نہیں ہے۔ ہاں، میں تمہیں اچھی طرح جانتی ہوں۔”

وکیل استغاثہ شرمندہ اور پریشان ہو کر کھڑا رہا۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا سوال کرے۔ کمرہ عدالت میں ہنسی کی لہر دوڑ گئی، مگر وکیل اپنی عزت بچانے کی کوشش میں وکیل دفاع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا، “مائی بشیراں، کیا تم اس شخص کو جانتی ہو؟”

حصہ 3: وکیل دفاع پر بھی وار

مائی بشیراں نے وکیل دفاع کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولی، “اور نہیں تو کیا، جیسے میں عبدالغفور کو نہیں جانتی؟” وہ ٹھٹھک کر بولی، “ارے اسے اس وقت سے جانتی ہوں جب یہ ڈائپر میں گھومتا تھا اور سارا محلہ ناک پر ہاتھ رکھ کر اس سے دور بھاگتا تھا۔”

مائی بشیراں نے اس کے بارے میں بھی حقیقتیں بیان کرنی شروع کر دیں: “یہ یہاں کا سست ترین بندہ ہے اور ہر ایک کی برائی ہی کرتا ہے۔ اوپر سے ہیروئنچی بھی ہے، اور کسی بندے سے تعلقات بنا کر نہیں رکھ سکتا۔ شہر کا سب سے نکما اور ناکام وکیل یہی ہے۔ چار بندیوں سے اس کا افیئر چل رہا ہے، جن میں سے ایک تمہاری بیوی بھی ہے۔ پرسوں رات جب تم اس طوائف کے ساتھ تھے تو یہ تمہارے گھر میں تھا۔” وکیل دفاع کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں، اور کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔

حصہ 4: جج کی مداخلت

یہ سب سن کر جج نے دونوں وکیلوں کو اپنے پاس بلایا۔ جج نے آہستہ سے دونوں سے کہا: “اگر تم دونوں میں سے کسی نے مائی بشیراں سے یہ پوچھا کہ وہ مجھے جانتی ہے تو میں دونوں کو پھانسی دے دوں گا۔” جج کا یہ جملہ سن کر کمرہ عدالت میں خاموشی چھا گئی، اور دونوں وکیلوں کے چہرے مزید سفید ہو گئے۔

حصہ 5: نتیجہ

یہ واقعہ کمرہ عدالت میں موجود ہر شخص کے لیے مزاحیہ تھا، مگر دونوں وکیلوں کے لیے ایک سبق تھا کہ بعض اوقات سچائی تلخ ہوتی ہے، اور کچھ سوالات ایسے ہوتے ہیں جو کبھی نہیں پوچھنے چاہییں۔ مائی بشیراں جیسے لوگ اپنی حقیقت بیانی اور صاف گوئی کے باعث اپنی سچائی کو بے خوفی سے بیان کرتے ہیں، چاہے اس کا سامنا کرنے والا کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو۔

اخلاقی سبق

یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمیں اپنے کردار کو درست رکھنا چاہیے کیونکہ کوئی نہ کوئی ہماری سچائی جانتا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، ہمیں دوسروں کے بارے میں سوال کرتے وقت محتاط رہنا چاہیے کیونکہ کبھی کبھار جواب ہمارے اندازے سے بالکل مختلف نکل سکتا ہے۔

یہ کہانی مزاحیہ انداز میں یہ پیغام دیتی ہے کہ حقیقت ہمیشہ سامنے آتی ہے، چاہے لوگ اسے کتنا ہی چھپانے کی کوشش کریں۔


مزید دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں پڑھنے کے لیے ssthem.xyz وزٹ کریں اور معلوماتی مواد حاصل کریں۔ اور اگر آپ مزید مزاحیہ اور سبق آموز کہانیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ssthem.com پر بھی کچھ خاص مواد مل سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top