تیسری قسط کا خلاصہ
زینب اور حارث کو ان کی زندگی میں آنے والی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حارث کے حادثے کے پیچھے ایک سوچی سمجھی سازش کا شبہ پیدا ہوا ہے، جس نے زینب کو خوف اور وسوسوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہسپتال میں حارث نے زینب کو بتایا کہ یہ سب ایک اتفاق نہیں، بلکہ ان کے خلاف کسی کی سوچی سمجھی چال ہے۔ زینب نے ٹھان لی ہے کہ وہ اس راز کا پردہ فاش کر کے ہی رہے گی۔
چوتھی قسط: راز اور حقیقت
حارث کی باتیں مسلسل میرے ذہن میں گونج رہی تھیں۔ کون لوگ تھے جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے تھے؟ اور کیوں؟ یہ سوالات میرے ذہن کو مسلسل الجھائے رکھتے۔ میں جانتی تھی کہ اس راز کو اکیلے جاننے کی ہمت شاید میرے بس میں نہیں تھی، مگر حارث کی محبت اور ان کی حفاظت کا جذبہ مجھے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار کر چکا تھا۔
ایک صبح میں ہسپتال پہنچی تو دیکھا کہ حارث کچھ الجھے ہوئے اور خاموش بیٹھے ہیں۔ میں نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی، مگر ان کے چہرے پر کوئی فکر چھپی ہوئی تھی۔
“زینب،” حارث نے آہستہ سے کہا، “یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہمارے آس پاس ہیں، مگر ہمارے دوست نہیں۔”
“کیا آپ مزید وضاحت کر سکتے ہیں؟” میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
“میرے کچھ ساتھی اس سازش کے بارے میں جانتے ہیں، مگر وہ شاید اس میں شامل ہیں یا ان کے لئے خاموشی ضروری ہے۔ تمہیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔” حارث کی باتیں مجھے اور بھی الجھا گئیں۔
کچھ دن بعد، حارث کی طبیعت بہتر ہونے لگی۔ میں نے ان سے کہا کہ جیسے ہی وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہوں، ہم دونوں مل کر اس راز کا پردہ فاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ حارث نے میری بات سن کر ہلکی سی مسکراہٹ دی، مگر ان کے چہرے پر ایک گہری سنجیدگی بھی تھی۔
اگلے دن، حارث کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ ہم اپنے گھر واپس آئے تو ایک خوف سا محسوس ہونے لگا۔ شام ہوتے ہی ہمارے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو وہاں ایک بوڑھے آدمی کھڑے تھے۔ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔
“کیا آپ حارث کی بیوی ہیں؟” انہوں نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
“جی، آپ کون ہیں؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔
“مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔ اندر آنے کی اجازت ہے؟”
میں نے انہیں اندر آنے دیا۔ بیٹھنے کے بعد انہوں نے ایک گہری سانس لی اور کہنا شروع کیا: “میں آپ کو ایک حقیقت بتانے آیا ہوں۔ آپ کا شوہر ایک ایسی سازش کا شکار ہوا ہے جس میں اس کے اپنے ہی کچھ ساتھی ملوث ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ سچائی کو بے نقاب کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔”
یہ سن کر میرا دل کانپ اٹھا۔ “کون لوگ ہیں یہ؟ اور کیوں؟”
“یہ لوگ وہ ہیں جن کا کام اپنے مفادات کے لئے کسی بھی حد تک جانا ہے۔ اگر آپ کو مزید جاننا ہے، تو آپ کو احتیاط سے ہر قدم اٹھانا ہوگا۔ آپ کے آس پاس کے لوگوں پر نظر رکھیں اور ان لوگوں سے بات کریں جو واقعی آپ کے ساتھ ہیں۔”
بوڑھے آدمی نے یہ کہہ کر ایک کاغذ میرے ہاتھ میں تھما دیا اور چپکے سے چلے گئے۔ کاغذ پر کچھ کوڈز اور نمبر لکھے ہوئے تھے۔ میں نے فوراً حارث کو دکھایا، اور ہم نے فیصلہ کیا کہ ان نمبروں کا کھوج لگا کر معلوم کریں گے کہ یہ کوڈز کیا ہیں۔
اگلے کچھ دن میں ہم نے اس معاملے میں مزید تحقیق شروع کی۔ ہمیں ایک پرانی فائل ملی جس میں کچھ مشتبہ ناموں کا ذکر تھا۔ اس فائل کو دیکھتے ہی حارث نے کہا، “یہ وہ لوگ ہیں جو شاید ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ہمیں ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنی ہوگی۔”
رات کے وقت ہم نے کمپیوٹر پر ان کوڈز کو ڈی کرپٹ کرنے کی کوشش کی۔ آخر کار ہمیں معلوم ہوا کہ یہ کوڈز ایک مخفی پیغام کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ پیغام میں لکھا تھا:
“اگر تم اس کھیل میں آگے بڑھو گے تو تمہاری زندگی کبھی پرسکون نہیں ہوگی۔ بہتر ہے کہ پیچھے ہٹ جاو۔”
یہ پیغام ہمیں ڈرانے کے لئے تھا۔ مگر اس نے ہمارے عزم کو اور بھی مضبوط کر دیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اس راز کو فاش کر کے ہی دم لیں گے، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔
کچھ دن بعد ہمیں ایک اور خط ملا، جس میں ایک جگہ کا نام لکھا تھا جہاں حارث کو بلایا گیا تھا۔ ہمیں یقین تھا کہ یہ جگہ سازشیوں کی ہے، مگر ہم وہاں جانے کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار تھے۔ ہم نے اپنے ایک دوست کو بھی اعتماد میں لیا اور اس سے مدد مانگی۔
ہم رات کے اندھیرے میں اس مقام پر پہنچے۔ وہاں ایک قدیم مکان تھا۔ ہمیں وہاں جا کر کوئی سراغ ملنے کی امید تھی، مگر دل میں خوف بھی تھا کہ کہیں کوئی جال نہ بچھا ہو۔
جیسے ہی ہم نے اندر قدم رکھا، ہمیں محسوس ہوا جیسے کوئی ہماری نگرانی کر رہا ہے۔ اچانک ایک سایہ ہمارے قریب آیا اور ہم نے سننے کی کوشش کی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
“تم یہاں کیوں آئے ہو؟” اس نے حیرت سے پوچھا۔
حارث نے جواب دیا، “ہمیں حقیقت کا علم چاہیے۔ ہم اس سازش کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں۔”
“سازش؟ حقیقت؟” اس شخص نے ہنس کر کہا۔ “یہ کھیل تمہارے لئے نہیں ہے۔ اگر تمہیں زندہ رہنا ہے، تو پیچھے ہٹ جاو۔”
حارث نے اس کے سامنے سینہ تان کر کہا، “میں اپنے ملک سے غداری برداشت نہیں کر سکتا۔ اور میں اس معاملے کی تہہ تک جاؤں گا، چاہے کچھ بھی ہو۔”
اس شخص نے حارث کو دیکھ کر کہا، “تو پھر تمہیں نتائج بھی بھگتنے ہوں گے۔” اس نے ایک چھوٹا سا کاغذ حارث کو تھما دیا اور کہا، “یہ تمہارے سوالوں کے جواب دے گا، مگر یہ تمہارے لئے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔”
ہم جلدی سے وہاں سے نکلے اور گھر واپس آ کر کاغذ کو کھول کر دیکھا۔ اس میں ایک ایسی حقیقت درج تھی جس نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا۔ کچھ اعلیٰ عہدے دار اور ان کے ساتھی، اپنے فائدے کے لئے ملک کے راز فروخت کر رہے تھے اور اس سازش کے پیچھے بھی وہی لوگ تھے۔
اب ہمارے سامنے دو راستے تھے۔ ایک، ہم اس راز کو فاش کر کے ان لوگوں کا پردہ چاک کریں، یا دوسرا راستہ یہ تھا کہ اس معاملے سے الگ ہو جائیں اور اپنی زندگی گزاریں۔ مگر حارث نے فیصلہ کیا کہ وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ان لوگوں کو بے نقاب کر کے دم لیں گے۔
کیا ہم اس سازش کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ کیا ہمیں ان لوگوں سے انصاف مل سکے گا؟
جاری ہے…
Summary of Episode 3
Zainab and Haris face new trials in their life. There’s now a suspicion that the accident Haris suffered was not accidental, but part of a carefully planned conspiracy. In the hospital, Haris confided to Zainab that someone might be plotting against them, unsettling Zainab and filling her with both fear and determination to uncover the truth.
Episode 4: Secrets and Revelations
Haris’s words lingered in my mind, stirring up worry. Who were these people? Why would anyone want to harm us? The questions plagued me, but my resolve strengthened — I couldn’t let my fears stand in the way of protecting Haris and uncovering the truth.
One morning at the hospital, I found Haris looking tense and unusually quiet. I tried to reassure him, but his mind seemed occupied with a hidden worry.
“Zainab,” Haris said softly, “there are people around us, people who might seem like friends but aren’t.”
“Can you tell me more?” I asked, my heart pounding.
“Some of my colleagues know about this conspiracy, but they either seem involved or have reasons to stay silent. You need to be careful, Zainab.” His words left me even more troubled.
A few days later, Haris’s health improved, and he was discharged from the hospital. When we got home, an odd feeling of unease settled around us. That evening, we heard a knock on the door. Opening it, I saw an elderly man with a troubled look in his eyes.
“Are you Haris’s wife?” he asked in a low tone.
“Yes, I am. Who are you?” I replied, puzzled.
“I have something to tell you. May I come in?”
After he settled into a chair, he took a deep breath and said, “I’ve come to tell you a truth. Your husband is caught in a conspiracy involving some of his own colleagues. They knew he planned to reveal certain truths.”
This shook me to the core. “Who are these people, and why are they doing this?”
“They’re powerful people who will go to any lengths for their gain. If you want to know more, you’ll need to tread carefully, trust only those closest to you, and stay vigilant.”
He handed me a piece of paper with codes and numbers scribbled on it, then quietly left. I showed it to Haris, and we decided to uncover the meaning behind these codes.
For the next few days, we researched and investigated. Eventually, we found an old file listing certain suspicious names. Haris looked at the list and said, “These might be the people who could harm us. We need to track their activities.”
Late at night, we sat at our computer, decrypting the codes on the paper. Finally, we deciphered it — it was a hidden message that read:
“If you continue down this path, your life will never be peaceful. Step back if you want to survive.”
It was clearly a threat, but it only strengthened our resolve. We decided to pursue the truth, no matter what risks lay ahead.
Some days later, another letter arrived, indicating a location where Haris was to meet someone. We were almost certain it was tied to the conspirators, but we were ready to take the risk. We confided in a trusted friend and asked for his support.
That night, we arrived at the specified location, an old, abandoned house. We expected to find clues, but anxiety crept over us, warning that this could be a trap.
As we cautiously entered, we sensed someone watching us. Suddenly, a shadowy figure appeared, speaking in a harsh voice.
“Why are you here?” he demanded.
Haris, standing tall, replied, “We want the truth. We want to expose this conspiracy.”
The figure laughed, “Truth? This game isn’t for you. If you want to stay alive, walk away now.”
But Haris, fearless, replied, “I can’t tolerate betrayal. I will uncover this matter, whatever the cost.”
The figure handed Haris a small piece of paper and said, “This will answer your questions, but it might also be the end of you.”
We quickly left and returned home to inspect the paper. It revealed a truth that shattered us. Some high-ranking officials and their allies were selling the nation’s secrets for their personal gain — these were the people behind Haris’s accident.
We were left with two choices: either we could risk everything and expose the people behind this conspiracy, or we could let go and try to live a peaceful life. But Haris decided he couldn’t stay silent. We resolved to reveal the truth, no matter the price.
Will we be able to expose the conspiracy? Will justice be served?
To be continued…