- خون کیا ہے؟
خون جسم کے اندر موجود ایک مائع ہے جو زندگی کی علامت ہے۔ یہ جسم کے تمام حصوں تک آکسیجن اور غذائی اجزاء پہنچانے اور فضلہ مادوں کو خارج کرنے میں مدد کرتا ہے۔ خون ایک معجزاتی مادہ ہے جو ہمارے جسم کے تمام اعضا کو زندہ رکھتا ہے۔ خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور اس کی یہ خاصیت اس میں موجود ہیموگلوبن کی وجہ سے ہے۔
خون کیسے بنتا ہے؟
خون کی تیاری کا عمل جسم کے اندر ہڈیوں کے گودے (Bone Marrow) میں ہوتا ہے۔ یہ گودا ہمارے جسم کی بڑی ہڈیوں کے اندر موجود ہوتا ہے، جیسے کہ ران کی ہڈی یا سینے کی ہڈی۔ خون کے تمام اجزاء، جیسے کہ سرخ خلیات، سفید خلیات، اور پلیٹلیٹس، ہڈیوں کے گودے میں بنتے ہیں
خون کے اجزاء
پلازما (Plasma)
پلازما خون کا مائع حصہ ہے جو خون کا تقریباً 55 فیصد حصہ بناتا ہے۔ یہ ایک شفاف یا ہلکے زرد رنگ کا مائع ہے جو خون کے خلیات (سرخ، سفید، اور پلیٹلیٹس) کو جسم کے مختلف حصوں میں لے جانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ پلازما جسمانی نظام کے مختلف افعال کو برقرار رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
پلازما کی تشکیل
پلازما کی 90-92 فیصد مقدار پانی پر مشتمل ہوتی ہے، جبکہ باقی 8-10 فیصد نمکیات، پروٹینز، ہارمونس، اور دیگر اہم اجزاء شامل ہوتے ہیں۔
پلازما کے اہم اجزاء:
-
پانی (Water):
- پلازما میں سب سے زیادہ مقدار پانی کی ہوتی ہے جو جسم کے تمام خلیات تک غذائی اجزاء اور گیسز پہنچانے میں مدد دیتا ہے۔
-
پروٹینز (Proteins):
پلازما میں موجود پروٹینز جسم کے کئی اہم افعال کے لیے ضروری ہیں:
- البومن (Albumin): خون کے دباؤ کو برقرار رکھنے اور سیال کو خلیات میں جمع ہونے سے روکنے میں مددگار۔
- گلوبیولن (Globulin): جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے اور انفیکشن سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔
- فیبرینوجن (Fibrinogen): خون کے جماؤ (Clotting) کے عمل کے لیے ضروری۔
- ٹرانسفرین (Transferrin): آئرن کی ترسیل میں مددگار۔
- نمکیات (Salts):
پلازما میں موجود نمکیات جسم کے الیکٹرولائٹ توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔ اہم نمکیات میں شامل ہیں:- سوڈیم (Sodium)
- پوٹاشیم (Potassium)
- کیلشیم (Calcium)
- کلورائیڈ (Chloride)
- ہارمونس (Hormones):
ہارمونس جسم کے مختلف افعال کو کنٹرول کرنے کے لیے پلازما کے ذریعے مختلف اعضا تک پہنچتے ہیں۔ - غذائی اجزاء (Nutrients):
پلازما میں گلوکوز، امینو ایسڈز، اور وٹامنز شامل ہوتے ہیں جو جسم کو توانائی فراہم کرتے ہیں۔ - فضلہ مادے (Waste Products):
پلازما جسم کے فضلہ مادوں، جیسے یوریا اور کریٹینین، کو گردوں تک لے جاتا ہے تاکہ وہ جسم سے خارج ہو سکیں۔
پلازما کے افعال
پلازما خون کے اہم افعال کو ممکن بناتا ہے:
- مواد کی ترسیل:
پلازما غذائی اجزاء، آکسیجن، اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جسم کے مختلف حصوں تک پہنچانے میں مدد کرتا ہے۔ - خون کا دباؤ برقرار رکھنا:
پلازما میں موجود البومن پروٹین خون کی گردش اور دباؤ کو متوازن رکھتا ہے۔ - مدافعتی نظام کو مضبوط بنانا:
گلوبیولن پروٹین انفیکشن اور بیماریوں کے خلاف مدافعت فراہم کرتا ہے۔ - خون کے جماؤ میں کردار:
فیبرینوجن پروٹین زخم کے مقام پر خون کے جماؤ کو یقینی بناتا ہے۔ - درجہ حرارت کو کنٹرول کرنا:
پلازما جسم کے درجہ حرارت کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پلازما کی کمی کی علامات
پلازما کی کمی یا خرابی درج ذیل مسائل پیدا کر سکتی ہے:
- جسم میں پانی کی کمی (Dehydration)۔
- خون کا جماؤ نہ ہونا یا غیر معمولی جماؤ۔
- مدافعتی نظام کی کمزوری۔
- زخم جلدی نہ بھرنا۔
- جسمانی تھکاوٹ یا کمزوری۔
پلازما کی صحت کو کیسے برقرار رکھیں؟
- پانی زیادہ پئیں: پلازما کے لیے ہائیڈریشن بہت ضروری ہے۔
- متوازن غذا کھائیں: پروٹینز، وٹامنز، اور منرلز سے بھرپور غذا پلازما کی صحت کے لیے اہم ہے۔
- ورزش کریں: خون کی روانی بہتر کرنے کے لیے روزانہ ورزش کریں۔
- تمباکو نوشی سے پرہیز کریں: یہ خون کے مائع حصے کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
- معالج سے رجوع کریں: خون کی کسی بھی بیماری کی صورت میں فوری معالج سے مشورہ کریں۔
سرخ خون کے خلیات (Red Blood Cells – RBCs)
سرخ خون کے خلیات، جنہیں ایریتھروسیٹس (Erythrocytes) بھی کہا جاتا ہے، خون کے سب سے اہم اور کثرت سے پائے جانے والے خلیات ہیں۔ یہ خلیات خون کو اس کا مخصوص سرخ رنگ دیتے ہیں اور جسم کے تمام حصوں تک آکسیجن پہنچانے کا بنیادی کام کرتے ہیں۔
سرخ خون کے خلیات کی ساخت
- شکل:
- یہ خلیات گول، چپٹے، اور مرکز کے بغیر ہوتے ہیں، جو ان کی لچکدار ساخت کو ظاہر کرتا ہے۔
- ان کی یہ ساخت انہیں خون کی باریک نالیوں (Capillaries) سے گزرنے میں مدد دیتی ہے۔
- ہیموگلوبن (Hemoglobin):
- یہ ایک آئرن پر مشتمل پروٹین ہے جو آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جوڑ کر جسم کے مختلف حصوں تک لے جاتا ہے۔
- ہیموگلوبن سرخ خون کے خلیات کا سب سے اہم جزو ہے۔
- مرکز کا نہ ہونا:
سرخ خون کے خلیات میں مرکز (Nucleus) نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ان میں زیادہ ہیموگلوبن ذخیرہ ہو سکتا ہے اور آکسیجن لے جانے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔
سرخ خون کے خلیات کی تیاری
سرخ خون کے خلیات ہڈیوں کے گودے (Bone Marrow) میں بنتے ہیں۔
- پیدائشی عمل (Erythropoiesis):
- یہ عمل گردے میں پیدا ہونے والے ہارمون ایریتھروپوئٹین (Erythropoietin) کی مدد سے ہوتا ہے۔
- ایریتھروپوئٹین سرخ خون کے خلیات کی پیداوار کو کنٹرول کرتا ہے۔
- ضروری اجزاء:
سرخ خون کے خلیات کی صحت مند پیداوار کے لیے درج ذیل اجزاء ضروری ہیں:- آئرن (Iron): ہیموگلوبن کی تیاری کے لیے۔
- وٹامن بی12 (Vitamin B12): خلیات کی تقسیم کے لیے۔
- فولک ایسڈ (Folic Acid): خلیات کی افزائش کے لیے۔
سرخ خون کے خلیات کی خصوصیات
- زندگی کی مدت:
- سرخ خون کے خلیات کی اوسط عمر تقریباً 120 دن ہوتی ہے۔
- پرانے خلیات کو جگر اور تلی میں ختم کیا جاتا ہے۔
- تعداد:
- صحت مند انسان میں تقریباً 4.7 سے 6.1 ملین خلیات فی مائیکرو لیٹر خون میں موجود ہوتے ہیں۔
- آکسیجن کی ترسیل:
- سرخ خون کے خلیات جسم کے تمام اعضا تک آکسیجن پہنچاتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پھیپھڑوں تک لے جاتے ہیں۔
- لچکدار ساخت:
- یہ خلیات اپنی شکل بدل کر باریک خون کی نالیوں میں سے گزر سکتے ہیں۔
سرخ خون کے خلیات کے افعال
- آکسیجن کی ترسیل:
- ہیموگلوبن آکسیجن کو جوڑ کر جسم کے تمام حصوں تک لے جاتا ہے۔
- کاربن ڈائی آکسائیڈ کی منتقلی:
- سرخ خلیات جسم کے ٹشوز سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لے کر پھیپھڑوں تک پہنچاتے ہیں۔
- تیزابیت کے توازن کو برقرار رکھنا:
- یہ خون کے پی ایچ لیول کو متوازن رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
سرخ خون کے خلیات کی کمی کی علامات
سرخ خون کے خلیات کی کمی انیمیا (Anemia) کہلاتی ہے۔ اس کی علامات میں شامل ہیں:
- جسمانی تھکاوٹ اور کمزوری۔
- سانس لینے میں دشواری۔
- جلد کی زردی۔
- چکر آنا۔
- دل کی دھڑکن تیز ہونا۔
سرخ خون کے خلیات کی صحت کو کیسے بہتر بنایا جائے؟
- آئرن سے بھرپور غذا کھائیں:
- پالک، گوشت، مچھلی، اور دالیں آئرن کا بہترین ذریعہ ہیں۔
- وٹامن بی12 اور فولیٹ لیں:
- انڈے، دودھ، اور سبز سبزیاں کھائیں۔
- پانی زیادہ پئیں:
- خون کی روانی کو بہتر رکھنے کے لیے۔
- تمباکو نوشی سے پرہیز کریں:
- تمباکو نوشی سرخ خون کے خلیات کو نقصان پہنچاتی ہے۔
- ورزش کریں:
- ورزش خون کی گردش اور آکسیجن کی ترسیل کو بہتر بناتی ہے۔
سرخ خون کے خلیات کی بیماریاں
- انیمیا (Anemia):
- ہیموگلوبن یا RBCs کی کمی۔
- سیکل سیل انیمیا (Sickle Cell Anemia):
- جینیاتی بیماری جس میں خلیات کی شکل خراب ہو جاتی ہے۔
- تھلیسیمیا (Thalassemia):
- ہیموگلوبن کی پیداوار میں کمی۔
- پولی سائیتھیمیا (Polycythemia):
- RBCs کی زیادتی۔
سفید خون کے خلیات (White Blood Cells – WBCs)
سفید خون کے خلیات، جنہیں لیوکو سائٹس (Leukocytes) بھی کہا جاتا ہے، ہمارے جسم کے مدافعتی نظام کا اہم حصہ ہیں۔ یہ خلیات جسم کو بیماریوں، انفیکشن، اور دیگر نقصان دہ مادوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ خون کے کل حجم کا صرف 1 فیصد حصہ ہوتے ہیں، لیکن ان کی اہمیت جسمانی دفاعی نظام کے لیے بے حد زیادہ ہے۔
سفید خون کے خلیات کی ساخت
- شکل:
- سفید خون کے خلیات مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اور ان کی شکل خلیے کی نوعیت کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔
- یہ سرخ خون کے خلیات سے بڑے اور بے رنگ ہوتے ہیں۔
- مرکز (Nucleus):
- سفید خون کے خلیات میں مرکز ہوتا ہے، جو ان کے کام کو کنٹرول کرتا ہے۔
- تحریک (Mobility):
- یہ خلیات خون کی نالیوں اور ٹشوز میں آزادانہ طور پر حرکت کر سکتے ہیں۔
سفید خون کے خلیات کی اقسام
سفید خون کے خلیات پانچ بنیادی اقسام پر مشتمل ہوتے ہیں، جو دو گروپس میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں:
1. گرینولوسائٹس (Granulocytes):
- یہ خلیات چھوٹے ذرات (Granules) پر مشتمل ہوتے ہیں۔
- اہم اقسام:
- نیوٹروفلز (Neutrophils):
- بیکٹیریا اور فنگس کے خلاف دفاع۔
- سفید خون کے خلیات کا سب سے بڑا حصہ (50-70%)۔
- ایوسینوفلز (Eosinophils):
- الرجی اور پرجیوی انفیکشن سے لڑتے ہیں۔
- یہ خلیات ہسٹامین (Histamine) خارج کرتے ہیں۔
- بیسوفلز (Basophils):
- سوزش کے عمل اور الرجی میں مدد کرتے ہیں۔
- نیوٹروفلز (Neutrophils):
2. اے گرینولوسائٹس (Agranulocytes):
- ان میں ذرات نہیں ہوتے۔
- اہم اقسام:
- لمفوسائٹس (Lymphocytes):
- وائرس اور بیماریوں کے خلاف مدافعت۔
- دو اقسام:
- بی سیلز (B-Cells): اینٹی باڈیز پیدا کرتے ہیں۔
- ٹی سیلز (T-Cells): متاثرہ خلیات کو ختم کرتے ہیں۔
- مونو سائیٹس (Monocytes):
- مردہ خلیات اور بیکٹیریا کو ختم کرتے ہیں۔
- یہ خلیات میکروفیجز (Macrophages) میں تبدیل ہو کر نقصان دہ مادے ہضم کرتے ہیں۔
- لمفوسائٹس (Lymphocytes):
سفید خون کے خلیات کے افعال
- بیماریوں کے خلاف دفاع:
- یہ خلیات بیکٹیریا، وائرس، اور دیگر نقصان دہ مادوں کو ختم کرتے ہیں۔
- مدافعتی نظام کی تشکیل:
- لمفوسائٹس مدافعتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں اور بیماریوں کے خلاف اینٹی باڈیز بناتے ہیں۔
- زخم کی مرمت:
- سفید خون کے خلیات سوزش کے عمل میں مدد کرتے ہیں، جس سے زخم جلدی بھر جاتے ہیں۔
- الرجی سے بچاؤ:
- ایوسینوفلز اور بیسوفلز الرجی کے ردعمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔
- جسمانی فضلہ کی صفائی:
- مونو سائیٹس مردہ خلیات اور غیر ضروری مادے صاف کرتے ہیں۔
سفید خون کے خلیات کی تعداد
- سفید خون کے خلیات کی تعداد عام طور پر 4,000 سے 11,000 خلیات فی مائیکرو لیٹر خون ہوتی ہے۔
- اگر ان کی تعداد کم یا زیادہ ہو جائے تو یہ مختلف بیماریوں کی علامت ہو سکتی ہے۔
سفید خون کے خلیات کی کمی یا زیادتی
1. کمی (Leukopenia):
- سفید خون کے خلیات کی کمی جسم کو انفیکشن اور بیماریوں کے لیے زیادہ حساس بنا دیتی ہے۔
- وجوہات:
- وائرل انفیکشنز
- ادویات کے مضر اثرات
- غذائی کمی
2. زیادتی (Leukocytosis):
- سفید خون کے خلیات کی تعداد زیادہ ہونا جسم میں انفیکشن، سوزش، یا دیگر بیماریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
- وجوہات:
- بیکٹیریل انفیکشنز
- الرجی
- خون کا کینسر (Leukemia)
سفید خون کے خلیات کی صحت کو کیسے بہتر بنایا جائے؟
- غذائیت سے بھرپور خوراک کھائیں:
- پھل، سبزیاں، اور پروٹین سے بھرپور غذا کھائیں۔
- وٹامن سی کا استعمال:
- وٹامن سی مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔
- ورزش کریں:
- باقاعدہ ورزش خون کی گردش کو بہتر کرتی ہے۔
- نیند پوری کریں:
- اچھی نیند مدافعتی نظام کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔
- بیماریوں سے بچاؤ:
- صاف صفائی کا خیال رکھیں اور ویکسین لگوائیں۔
سفید خون کے خلیات سے متعلق بیماریاں
- لیوکیمیا (Leukemia):
- سفید خون کے خلیات کی غیر معمولی پیداوار۔
- ایچ آئی وی (HIV):
- وائرس جو سفید خون کے خلیات کو نقصان پہنچاتا ہے۔
- آٹو امیون بیماریاں:
- جسم کا مدافعتی نظام اپنے ہی خلیات پر حملہ کرتا ہے۔
پلیٹلیٹس (Platelets)
پلیٹلیٹس، جنہیں تختیوں کے خلیات یا تھرمبوسائٹس (Thrombocytes) بھی کہا جاتا ہے، خون کے اہم اجزاء میں شامل ہیں۔ یہ خلیات خون کے جمنے (Clotting) کے عمل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور جسم کو چوٹ یا زخم کی صورت میں خون بہنے سے بچاتے ہیں۔ پلیٹلیٹس خون کی گردش میں مستقل موجود رہتے ہیں اور جسم کے ہر زخم پر فوری ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
پلیٹلیٹس کی ساخت
- شکل:
- پلیٹلیٹس گول یا ڈسک کی شکل کے چھوٹے خلیات ہوتے ہیں۔
- ان کی ساخت بے ترتیب ہوتی ہے اور یہ سرخ یا سفید خون کے خلیات سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔
- مرکز (Nucleus):
- پلیٹلیٹس میں مرکز (Nucleus) نہیں ہوتا۔
- زندگی کی مدت:
- پلیٹلیٹس کی اوسط عمر 7 سے 10 دن ہوتی ہے، جس کے بعد انہیں جگر یا تلی میں توڑ دیا جاتا ہے۔
- ذخیرہ:
- پلیٹلیٹس کا تقریباً 25-30 فیصد حصہ تلی (Spleen) میں ذخیرہ ہوتا ہے۔
پلیٹلیٹس کی تیاری
- پلیٹلیٹس ہڈی کے گودے (Bone Marrow) میں موجود بڑی خلیاتی ساختوں، جنہیں میگا کیریوسائٹس (Megakaryocytes) کہا جاتا ہے، سے بنتے ہیں۔
- یہ میگا کیریوسائٹس ٹوٹ کر پلیٹلیٹس بناتے ہیں، جو خون میں شامل ہو جاتے ہیں۔
پلیٹلیٹس کے افعال
- خون کے جمنے میں مدد:
- زخم کی جگہ پر پہنچ کر پلیٹلیٹس آپس میں جڑ جاتے ہیں اور ایک پلگ (Platelet Plug) بناتے ہیں، جو خون بہنے کو روکتا ہے۔
- خون کی نالیوں کی مرمت:
- پلیٹلیٹس خون کی نالیوں کے ٹوٹے ہوئے حصے کو مرمت کرنے میں مددگار ہیں۔
- خون کا بہاؤ کنٹرول کرنا:
- خون کے جمنے کے عمل میں شمولیت سے یہ خون کے بہاؤ کو قابو میں رکھتے ہیں۔
- کیمیکل خارج کرنا:
- پلیٹلیٹس کیمیکل خارج کرتے ہیں جو دیگر خلیات کو خون جمنے کے عمل میں شامل ہونے کا پیغام دیتے ہیں۔
پلیٹلیٹس کی تعداد
- ایک صحت مند انسان کے خون میں پلیٹلیٹس کی تعداد عام طور پر 150,000 سے 450,000 فی مائیکرو لیٹر ہوتی ہے۔
پلیٹلیٹس کی کمی (Thrombocytopenia):
- اگر تعداد 150,000 فی مائیکرو لیٹر سے کم ہو جائے تو یہ خطرناک ہو سکتا ہے اور خون بہنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
پلیٹلیٹس کی زیادتی (Thrombocytosis):
- اگر تعداد 450,000 فی مائیکرو لیٹر سے زیادہ ہو جائے تو یہ خون جمنے کے عمل میں خرابی پیدا کر سکتا ہے۔
پلیٹلیٹس کی کمی کی وجوہات:
- وائرل انفیکشن (مثلاً ڈینگی)
- جگر یا تلی کی بیماریاں
- آٹو امیون بیماری
- بعض ادویات کے مضر اثرات
پلیٹلیٹس کی زیادتی کی وجوہات:
- خون کا کینسر (Leukemia یا Lymphoma)
- انفیکشن
- سوزش یا انفلامیشن
- آئرن کی کمی
پلیٹلیٹس کی کمی کی علامات
- جلد پر نیل یا دھبے پڑنا۔
- زخم کے بعد خون کا دیر سے رکنا۔
- ناک یا مسوڑھوں سے خون آنا۔
- جسمانی کمزوری یا تھکاوٹ۔
- ہاضمے میں خون کا اخراج (GI Bleeding)۔
پلیٹلیٹس کی زیادتی کی علامات
- خون کا غیر معمولی جمنا۔
- ہاتھوں یا پیروں میں جھنجھناہٹ یا درد۔
- سانس لینے میں مشکل۔
- زخم کے بغیر خون کے لوتھڑے بننا۔
پلیٹلیٹس کی صحت کو کیسے بہتر بنایا جائے؟
- متوازن غذا کھائیں:
- آئرن، وٹامن بی12، اور فولک ایسڈ سے بھرپور غذا کھائیں۔
- پالک، انار، گاجر، اور کیلا بہترین انتخاب ہیں۔
- زیادہ پانی پئیں:
- جسم کو ہائیڈریٹ رکھنے سے خون کی روانی بہتر ہوتی ہے۔
- تمباکو نوشی سے پرہیز کریں:
- تمباکو نوشی پلیٹلیٹس کے افعال کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
- ادویات کا درست استعمال کریں:
- ایسی ادویات سے بچیں جو پلیٹلیٹس کی کمی کا سبب بن سکتی ہیں۔
- ڈاکٹر سے رجوع کریں:
- کسی بھی غیر معمولی علامات کی صورت میں فوری معالج سے مشورہ کریں۔
پلیٹلیٹس سے متعلق بیماریاں
- تھرمبوسائٹوپینیا (Thrombocytopenia):
- پلیٹلیٹس کی تعداد میں کمی۔
- تھرمبوسائٹوسیس (Thrombocytosis):
- پلیٹلیٹس کی تعداد میں زیادتی۔
- ڈینگی بخار:
- ڈینگی وائرس پلیٹلیٹس کی تعداد کو کم کر سکتا ہے۔
- آئی ٹی پی (ITP – Immune Thrombocytopenia):
- ایک آٹو امیون بیماری جس میں جسم خود پلیٹلیٹس کو تباہ کرتا ہے۔
- ہیمافیلیا (Hemophilia):
- خون جمنے کی خرابی، جو پلیٹلیٹس کے افعال کو متاثر کرتی ہے۔
خون کے گروپس کی اہمیت
- خون کی منتقلی:
- خون کی مطابقت نہ ہونے کی صورت میں خون کی منتقلی مہلک ہو سکتی ہے۔
- مثال کے طور پر، گروپ A والے شخص کو گروپ B کا خون نہیں دیا جا سکتا۔
- حمل کے دوران:
- Rh فیکٹر ماں اور بچے کے لیے اہم ہے۔
- اگر ماں Rh- اور بچہ Rh+ ہو تو یہ پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔
- میڈیکل ٹیسٹ اور علاج:
- خون کے گروپ کا علم بیماریوں کے علاج اور سرجری کے دوران ضروری ہے۔
- بلڈ بینک:
- خون کے عطیہ اور ذخیرہ کے لیے گروپ کی مطابقت بے حد اہم ہے۔
خون کے گروپس (Blood Groups)
خون کے گروپس وہ درجہ بندی ہیں جو انسانی خون کے مختلف اقسام کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ گروپس خون میں موجود اینٹی جنز (Antigens) اور اینٹی باڈیز (Antibodies) کی بنیاد پر طے کیے جاتے ہیں۔ خون کے مختلف گروپس کی موجودگی انسانی جسم میں خون کی منتقلی (Blood Transfusion) کے دوران بے حد اہمیت رکھتی ہے۔
خون کے گروپس کی درجہ بندی
خون کو بنیادی طور پر ABO سسٹم اور Rh فیکٹر کے ذریعے درجہ بندی کی جاتی ہے۔
1. ABO سسٹم
یہ سسٹم خون کے چار اہم گروپس کی نشاندہی کرتا ہے:
- گروپ A:
-
- اس میں A اینٹی جنز موجود ہوتے ہیں اور Anti-B اینٹی باڈیز خون میں پائی جاتی ہیں۔
- گروپ B:
- اس میں B اینٹی جنز موجود ہوتے ہیں اور Anti-A اینٹی باڈیز خون میں پائی جاتی ہیں۔
- گروپ AB:
- اس میں A اور B دونوں اینٹی جنز موجود ہوتے ہیں اور کوئی اینٹی باڈیز نہیں ہوتی۔
- یہ یونیورسل ریسیپیئنٹ (Universal Recipient) کہلاتا ہے۔
- گروپ O:
- اس میں کوئی اینٹی جنز نہیں ہوتے لیکن Anti-A اور Anti-B دونوں اینٹی باڈیز خون میں موجود ہوتی ہیں۔
- یہ یونیورسل ڈونر (Universal Donor) کہلاتا ہے۔
2. Rh فیکٹر (Rhesus Factor):
-
-
- یہ ایک پروٹین ہے جو خون کے گروپس کو مزید دو اقسام میں تقسیم کرتا ہے:
- Rh+ (پازیٹو): اگر یہ پروٹین خون میں موجود ہو۔
- Rh- (نیگیٹو): اگر یہ پروٹین خون میں موجود نہ ہو۔
- یہ ایک پروٹین ہے جو خون کے گروپس کو مزید دو اقسام میں تقسیم کرتا ہے:
-
-
ABO سسٹم اور Rh فیکٹر
خون کی درجہ بندی کے دو اہم نظام ہیں: ABO سسٹم اور Rh فیکٹر۔ یہ دونوں نظام خون کے گروپس کو سمجھنے اور ان کی مطابقت کو جانچنے کے لیے بنیادی ہیں۔
1. ABO سسٹم
یہ سسٹم 1901 میں آسٹریلوی سائنسدان کارل لینڈسٹینر (Karl Landsteiner) نے دریافت کیا۔ اس نظام کے تحت خون کو A، B، AB، اور O گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے، جو خون میں موجود اینٹی جنز (Antigens) اور اینٹی باڈیز (Antibodies) پر مبنی ہیں۔
ABO سسٹم کی بنیاد
- اینٹی جنز: یہ خون کے سرخ خلیات (RBCs) کی سطح پر موجود پروٹین ہوتے ہیں۔
- اینٹی باڈیز: یہ خون کے پلازما میں پائے جانے والے پروٹین ہیں، جو مخصوص اینٹی جنز کے خلاف ردعمل دیتے ہیں۔
خون کے گروپس کی وضاحت
- گروپ A:
- سرخ خون کے خلیات پر A اینٹی جنز موجود ہیں۔
- پلازما میں Anti-B اینٹی باڈیز موجود ہیں۔
- گروپ B:
- سرخ خون کے خلیات پر B اینٹی جنز موجود ہیں۔
- پلازما میں Anti-A اینٹی باڈیز موجود ہیں۔
- گروپ AB:
- سرخ خون کے خلیات پر A اور B دونوں اینٹی جنز موجود ہیں۔
- پلازما میں کوئی اینٹی باڈیز نہیں ہوتیں۔
- یہ گروپ یونیورسل ریسیپیئنٹ (Universal Recipient) کہلاتا ہے۔
- گروپ O:
- سرخ خون کے خلیات پر کوئی اینٹی جنز نہیں ہوتے۔
- پلازما میں Anti-A اور Anti-B دونوں اینٹی باڈیز موجود ہیں۔
- یہ گروپ یونیورسل ڈونر (Universal Donor) کہلاتا ہے۔
2. Rh فیکٹر
Rh فیکٹر، جسے Rhesus فیکٹر بھی کہا جاتا ہے، خون میں موجود ایک مخصوص پروٹین پر مبنی ہے۔ یہ خون کے گروپس کو مزید دو اقسام میں تقسیم کرتا ہے:
- Rh+ (پازیٹو): اگر یہ پروٹین خون کے سرخ خلیات کی سطح پر موجود ہو۔
- Rh- (نیگیٹو): اگر یہ پروٹین خون کے سرخ خلیات کی سطح پر موجود نہ ہو۔
Rh فیکٹر کی دریافت
- Rh فیکٹر 1940 میں دریافت کیا گیا، جب سائنسدانوں نے بندر Rhesus Macaque میں یہ پروٹین پایا، اور اسی بنیاد پر اسے Rh فیکٹر کا نام دیا گیا۔
Rh فیکٹر کی اہمیت
- حمل کے دوران:
- اگر ماں کا Rh نیگیٹو اور بچے کا Rh پازیٹو ہو، تو ماں کا مدافعتی نظام بچے کے خون پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔
- اس کے علاج کے لیے Rh امیونوگلوبلین (RhIg) دیا جاتا ہے۔
- خون کی منتقلی:
- Rh فیکٹر خون کی منتقلی کے دوران مطابقت کے لیے ضروری ہے۔
- Rh نیگیٹو افراد کو صرف Rh نیگیٹو خون دیا جا سکتا ہے، جبکہ Rh پازیٹو افراد کو دونوں اقسام کا خون دیا جا سکتا ہے۔
ABO اور Rh فیکٹر کی مشترکہ درجہ بندی
جب ABO سسٹم اور Rh فیکٹر کو یکجا کیا جاتا ہے، تو خون کے 8 بنیادی گروپس بنتے ہیں:
- A+
- A-
- B+
- B-
- AB+
- AB-
- O+
- O-
خون کے گروپس کی مطابقت (Compatibility)
خون کا گروپ خون دے سکتا ہے (Donate To) خون لے سکتا ہے (Receive From) A+ A+, AB+ A+, A-, O+, O- A- A+, A-, AB+, AB- A-, O- B+ B+, AB+ B+, B-, O+, O- B- B+, B-, AB+, AB- B-, O- AB+ AB+ سب خون کے گروپس AB- AB+, AB- AB-, A-, B-, O- O+ O+, A+, B+, AB+ O+, O- O- سب خون کے گروپس O-
ABO سسٹم اور Rh فیکٹر کے فوائد
- خون کی منتقلی کی درستگی:
- ABO اور Rh فیکٹر کی مدد سے خون کی مطابقت چیک کی جاتی ہے تاکہ پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔
- حمل کے دوران پیچیدگیوں کا علاج:
- Rh فیکٹر ماں اور بچے کے خون کے مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے۔
- بلڈ ڈونیشن:
- خون کے گروپس کی معلومات سے بلڈ بینک میں خون کا صحیح ذخیرہ کیا جاتا ہے۔
-
حوالہ جات: